[Daily Beats]

Ads Top

سال 2014ء :بیتے لمحوں کی بیتی یادیں


اس سال تمام سرگرمیاںکر کٹ ورلڈ کپ کی تیاری کے گردگھومتی رہیں *** کھلاڑی کھیلوں کے زوال کے منحوس چکر سے نکل کر فتوحات کی راہ اپناتے نظر آئے *** ایشیا ئی ہاکی کپ،سنوکر،کبڈی اور چیمپئنز ہاکی ٹرافی میں سلور میڈل خوش آئند ہیں جبکہ سعید اجمل پر پابندی خسارے کا سودا ہے
سال2014ء اب صرف چند دنوں بعد تلخ اور شیریں یادوں کے ساتھ ہمیں الوداع کہنے جا رہا ہے۔ اس سال کو زندگی کے مختلف شعبوں کے فریم میں دیکھا جائے تو کھٹا میٹھا سا نظر آئے گا۔ کھیلوں کی ہی بات کرلیں توکھلاڑی امسال کھیلوں کے زوال کے منحوس چکر سے نکل کر فتوحات کی راہ اپناتے نظر آئیں گے۔ پاکستان جو دہشت گردی کے حوالے سے گزشتہ کئی برسوں سے قتل وغارت گری اور بدامنی کے شکنجے میںجکڑا نظر آتا رہا، خوف اور بے یقینی کی اس کیفیت میں بھی اس سال کھیل کے میدانوں سے کئی خوشخبریاں جھانکتی نظر آئیں ۔2014ء کی یادوں کے سفر کا آغاز ورلڈکپ 2015ء کی ٹرافی کی پاکستان آمد سے کرتے ہیں۔ 16 ستمبر2014ء کو لاہور میںکپتان مصباح الحق نے ٹرافی کو فضا میں بلند کرتے ہوئے یہ الفاظ دہرائے کہ ’’عمران خان کے ورلڈ کپ ٹرافی اٹھانے کا یادگار لمحہ ہمیشہ میری نظروں کے سامنے رہتا ہے اور میری خواہش ہے کہ ایک بار پھر پاکستان میں یہ ٹرافی واپس آئے‘‘۔ اس موقع پر مینار پاکستان کے احاطے میں ٹرافی اور کپتان کا فوٹو شوٹ بھی ہوا۔ 2014ء میں تمام سرگرمیاںکر کٹ ورلڈ کپ کی تیاری کے گردگھومتی نظر آتی ہیں۔ پی سی بی نے مصباح الحق کو ورلڈ کپ 2015ء کیلئے کپتان نامزد کیا ہے لیکن قیادت کا یہ پھڈا کئی بار سر اٹھا چکا ہے۔ ایک ون ڈے میچ میں کپتانی ملنے پر آفریدی نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور تنازع کھڑا ہوگیا۔صرف ایک میچ کے لئے قائم مقام کپتان بننے والے آفریدی نے بیان داغ دیا کہ ورلڈ کپ کے لیے بورڈ نے مجھے کپتان بنانا ہے یا مصباح الحق کو، اس کا فیصلہ ابھی کر لیا جائے۔حالانکہ آفریدی جانتے تھے کہ کرکٹ بورڈ کئی ماہ پہلے سے مصباح کو ورلڈ کپ ٹیم کی کپتانی کے لئے نامزد کر چکا ہے۔یہ عجیب بیان تھا جس کے جواب میں چیئرمین کرکٹ بورڈ کو اپنا فیصلہ ایک بار دوبارہ سنانا پڑا کہ ورلڈ کپ کیلئے کپتان مصباح الحق ہی ہونگے۔ اب آفریدی نے حالیہ سیریز میں نیوزی لینڈ کے خلاف اچھی کارکردگی دکھا کر اپنی سلیکشن کو صحیح ثابت کرنے کی سعی تو کی ہے ورنہ اس سے قبل تو یوں ہی محسوس ہوتا تھا جیسے سڑک پر ٹیپ بال کا میچ کھیلنے آئے ہوں۔ قارئین کوتو یاد ہی ہوگا کہ ورلڈ کپ 2011ء میں قومی ٹیم کے کپتان لالہ آفریدی تھے اور ان کی کمزورکپتانی،بچگانہ غصے اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے سیمی فائنل میں شکست ہوگئی تھی۔خیر رواں برس کی کامیابیوں، ناکامیوں کی طرف چلتے ہیں۔ 2014ء میںسری لنکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز ناکامی کے بعد قومی ٹیم کی ناکامیاں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ ورلڈ کپ کے انعقاد میں صرف 47 دن رہ گئے ہیں اور ہماری ٹیم میں ورلڈ کپ کی حکمت عملی تو درکنار، ہم ایک میچ کے بعد دوسرے میچ کی سٹریٹجی طے کرنے میں ناکام ہیں۔ آسٹریلیا سے ون ڈے سیریز3-0 سے ہارے ۔ آسٹریلیا سے قبل اگر سری لنکا کے خلاف شکست سے کچھ سیکھ لیتے تو ناکامیوں کی شرح یہ نہ ہوتی۔ افسوس کہ بھاری معاوضے وصول کرنے والے کوچز بھی گزرے سال میں کوئی تبدیلی لانے میں ناکام رہے۔ 2014ء میں بہت سے ایشوز ابھر ابھر کر سامنے آئے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ میوزیکل چیئر کا کھیل بورڈ کے چیئرمین کے عہدے کیلئے کھیلا گیا۔ صبح کوئی اور چیئرمین تو شام کو نجم سیٹھی چیئرمین ہوتے۔ جانے نجم سیٹھی نے کونسی گیدر سنگھی سنگھائی کہ پیٹرن انچیف وزیراعظم میاں نواز شریف انہیں ہی بار بار چیئرمین بنانے پر بضد نظر آئے۔ 2014ء میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میںتاریخی کلین سوئپ کامیابی سے یوں محسوس ہوا جیسے پاکستانی ٹیم دنیائے کرکٹ کے چار بڑی ٹیموں میں شامل ہوگئی ہے اور انتظامیہ ورلڈ کپ کی تیاری سے مطمئن نظر آئی۔ لیکن حقیقت میں تو ایسا نہیں تھا۔ نیوزی لینڈ کی حالیہ سیریز میں ٹی 20 سیریز برابر رہی جبکہ ٹیسٹ سیریز بھی 1-1 سے برابر تھی۔ ون ڈے میچز میں پہلامیچ جیتا تو دوسرا ہارے۔ تیسرا جیتے تو چوتھے میچ میں اپناآپ دکھایا اور آخری میچ میں نیوزی لینڈ نے 68 رنز سے شکست دیکر سیریز کی فتح اپنے نام کی اور ابوظہبی سے اپنے گھر کی راہ لی اور قومی کھلاڑی منہ لٹکائے وطن لوٹے۔ یہ سیریز تو ورلڈ کپ کی تیاری کے سلسلے میں تھیں لیکن ان میچز سے ثابت ہو ا کہ ٹیم کا بنیادی کمبی نیشن ہی درست نہیں، ہمارے پاس پانچویں بائولر ہی نہیں ہے۔حفیظ پابندی کی زد میں ہیں،ہمیں مجبوری میں حارث سہیل کو پارٹ ٹائم بائولر بنانا پڑ رہا ہے، دوسری طرف تسلسل سے پرفارم کرنے والے فاسٹ بائولرز کی بھی قلت ہوگئی۔ عمر گل اور جنید خان کی انجری کے باعث محمد عرفان کا ساتھ دینے والا دوسرا کونسا بائولر ہے؟ سہیل تنویر اور وہاب ریاض متاثر کن نہیں رہے۔ ایک میچ میں آخری اوورز کے دوران ایک اینڈ پر عرفان تو دوسرے اینڈ پر ذوالفقار بابر سے بائولنگ کروانی پڑی۔ ورلڈ کپ سے قبل آخری سیریز میں ایک میچ مکمل ہونے کے بعدبھی نتیجہ وہی نکلا کہ افتتاحی جوڑا نہیں ہے سعید انور اور عامر سہیل کے دور کو ایک مدت گزر چکی۔ اب توان کے بالوں میں سفیدی اتر آئی اور وہ چالیس کی عمر میں داخل ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک پاکستانی قومی ٹیم کوئی اوپننگ پیئرہی تیار نہ کرسکے۔آیئے اب 2014ء میں قومی ٹیم کی کارکردگی کاجائزہ لیتے ہیں۔ 2014 ء کا سال پاکستان ٹیسٹ ٹیم کیلئے ملا جلا رہا ۔اس سال قومی ٹیم نے دس ٹیسٹ میچ کھیلے‘ چار میں کامیابی ملی اور چار میں شکست ہوئی جبکہ 2 میچ ڈرا ہوئے۔ پاکستان ٹیم نے سری لنکا کے خلاف پانچ ٹیسٹ میچ کھیلے ‘ تین میں سری لنکا ‘ ایک میں پاکستان کامیاب رہا‘ ایک میچ بغیر کسی فیصلے کے ختم ہوا۔ آسٹریلیا کے خلاف دونوںٹیسٹ میچز میں پاکستان ٹیم نے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف تین میچوں کی سیریز ایک ایک سے برابر رہی۔ یونس خان 10 ٹیسٹ میچوں میں 6 سنچریوں اور 2 نصف سنچریوں کی مدد سے ایک ہزار 213 1رنز بنا کر ٹاپ پر رہے۔ مصباح الحق نے 10 میچوں کی 17 اننگز میں 882 رنز بنائے جن میں چار سنچریاں اور چار نصف سنچریاں بھی شامل ہیں۔ اظہر علی 770 رنز کے ساتھ تیسرے جبکہ وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد 743 رنز کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔ دونوں نے تین تین سنچریاں سکور کیں۔ سال میں سب سے زیادہ سنچریاں بنانے کا ریکارڈ بھی یونس خان کے حصے میں آیا، انہوں نے 6 سنچریاں سکور کیں۔ مصباح الحق نے سب سے زیادہ 17چھکے لگائے جبکہ اسد شفیق اور یونس خان بارہ بارہ چھکوں کے ساتھ دوسرے تیسرے نمبر پر رہے۔ باؤلنگ میں یاسر شاہ نے 5میچوں میں 27 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ ذوالفقار بابر نے بھی 5 میچوں میں 27 شکار کئے۔ جنید خان کے حصے میں 18 وکٹیں آئیں۔ ون ڈے میچز میں بہت سی خامیاں کھل کر سامنے آئیں۔سال کے آغاز میں ہی ہم ایشیا کپ کے اعزاز سے محروم ہوئے اور اس کے بعد دورہ سری لنکا میں برتری حاصل کرنے کے باوجود شکست ہوئی، پھر آسٹریلیا نے پاکستان کو متحدہ عرب امارات میں مات دی اور اب سال کے آخر میں ساتویں نمبر کی ٹیم نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست سے بھی قوم کو صدمہ پہنچایا۔ ان پے در پے شکستوں نے ٹیم کی مجموعی اہلیت اور کئی کھلاڑیوں کی قابلیت پر سوالیہ نشان اٹھا ئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ نئے سال میں اسد شفیق کا ایک روزہ کیریئر ختم ہو جائے۔ایک زمانے میں اپنی سوئنگ سے متاثر کرنے والے انو رعلی کے لئے ٹیم میں جگہ بنانا مشکل ہو رہا ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کئی ناکامیوں کے بعد بنائی گئی سنچری بھی یونس خان کے ایک روزہ کیریئر کو نہ بچا سکے لیکن ان مایوس کن حالات میں نوجوان آل راؤنڈر حارث سہیل امید کی ایک کرن بن کر نمودار ہوئے ہیں جنہوں اپنی کارکردگی کی بدولت سلیکٹرز کے ساتھ ساتھ قوم کی نظروں میں بھی جگہ مستحکم کی ہے۔ انہوں نے سیریز میں سب سے زیادہ رنز بھی بنائے اور زیادہ وکٹیں لینے والے تین بائولرز میں بھی شامل رہے۔اس سے قبل حارث نے بھارت، جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے دورے ضرور کیے لیکن انہیں موقع نہیں دیا گیا۔ اب بھی انہیں نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے لیے عمر اکمل جیسے اہم کھلاڑی کی جگہ طلب کیا گیا،یہ تو خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے پہلے ہی میچ میںفاتحانہ اننگز کھیل کر اپنی اہلیت ثابت کردی۔ محمد حفیظ پر پابندی کے بعد حارث سہیل پاکستانی سکواڈ میں ایک حقیقی آل راؤنڈر کی حیثیت سے ایک لمبے عرصے تک پاکستان کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شاہد آفریدی کی فارم برقرار رہی اور حارث سہیل بھی عالمی کپ کے لیے حتمی دستے میں شامل ہوئے تو لوئر مڈل آرڈر میں دو بہترین آل راؤنڈرز کا اضافہ عالمی کپ میں پاکستان کے امکانات کو خاصا بہتر بنا سکتا ہے۔ 2014ء کے آغازمیں قومی ٹیم میں دوبارہ واپسی کے بعد سرفرازاحمد نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور رنز کے انبار لگاتے گئے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں سرفرازاحمد نے سال کی تیسری سنچری اسکور کی اور پاکستان کا پہلا وکٹ کیپر بن گیا جس نے ٹیسٹ کرکٹ میں ایک سال کے دوران تین سنچریاں اسکور کی ہوں۔ سرفراز نے دبئی ٹیسٹ کی پہلی اننگز کے خاتمے تک تین سنچریوں اورچار نصف سنچریوں سمیت 74کی شاندار اوسط سے 666 رنزاسکورکئے ہیں۔ بھارتی کپتان مہندراسنگھ دھونی دوسرے نمبرپر رہے انہوں نے بھی سال بھر کے دوران 13 اننگز میں بیٹنگ کی اور صرف466 رنز ہی بنا پائے۔ سرفرازاحمد کی اس عمدہ بیٹنگ فارم نے ان کی ون ڈے ٹیم میں جگہ مستحکم کر لی ،مگر انہیں اپنی وکٹ کیپنگ بہتر بنانی ہوگی۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سعید اجمل پر پابندی: 2014ء میں ایک بار پھر پاکستان کے جادوگر بائولر سعید اجمل پابندی کی زد میں آ گئے۔وہ دراصل دوسری مرتبہ مشکوک بولنگ ایکشن کی زد میں آئے ہیں۔ اس سے قبل 2009 ء میں بھی ان کے بولنگ ایکشن پر اعتراض ہوا تھا تاہم بعد میں وہ کلیئر ہوگئے تھے۔ماضی میں سعید اجمل یہ موقف اختیار کرتے آئے ہیں کہ ایک ٹریفک حادثے کی وجہ سے ان کا بازو متاثر ہوا تھا جس کی وجہ سے آئی سی سی نے انھیں 15 ڈگری سے زیادہ کی چھوٹ دے رکھی ہے۔سعید اجمل ٹیسٹ کرکٹ میں 178 ون ڈے میچوں میں 183 اور ٹی20 میں 85 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔وہ ٹی20 انٹرنیشنل میں دنیا میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر ہیں جبکہ اس وقت وہ آئی سی سی کی عالمی ون ڈے رینکنگ میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ان پر پابندی کی وجہ سے پاکستانی بائولنگ اٹیک کمزور ہوا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کی عدم موجودگی میںیاسر شاہ اورذولفقار بابر نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ایشیا ئی ہاکی کپ،سنوکر،کبڈی اور چیمپئنز ہاکی ٹرافی میں سلور میڈل: 2014ء کے آخر میں چیمپئنز ہاکی ٹرافی میں گرین شرٹس نے سلور میڈل اپنے نام کر لیا، میگا ایونٹ کے فائنل میں جرمنی نے گرین شرٹس کو دو صفر سے ہرا کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔جرمنی کا یہ مجموعی طور پر دسواں جبکہ 2007ء کے بعد پہلا چیمپئنز ٹرافی گولڈ میڈل ہے۔ بھارت سے فتح کے بعدپاکستانی ہاکی ٹیم کا جشن منانے کے تنازعے کی وجہ سے کچھ دبائو میں نظر آئی جس کی وجہ سے سو فیصد کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔اس کے باوجود سلور میڈل کا حصول کسی طور کم نہیں ہے اس لیے کہ اس سے قبل ہماری ہاکی ٹیم ہمیشہ نچلی پوزیشنز میں پہلے نمبر پر آتی تھی۔اسی سال ایشیا کپ میں بھی قومی ٹیم سلور میڈل لیکر وطن لوٹی تھی۔سنوکر کے عالمی مقابلے میں پاکستان کے محمد سجاد نے سلور میڈل اپنے نام کیا ہے۔اسی طرح کبڈی کے عالمی کپ میں بھی پاکستانی ٹیم نے سلور میڈل حاصل کیا۔گرچہ اس مقابلے میں بھارتی ٹیم کی مدد کے لئے ان کے ریفری پوری طرح ان کے ساتھ تھے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا پہلا قدم: اس سال ایک خوش آئند بات یہ ہوئی ہے کہ کینیا کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا اور یہ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کیلئے پہلا قدم ہے۔پی سی بی غیر ملکی کرکٹ بورڈز کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔آئندہ سال مزید تین ٹیمیں پاکستان کا دورہ کریں گی جس سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا باقاعدہ آغاز ہوجائے گا۔ اللہ کرئے پاکستان کسی بھی حادثے سے محفوظ رہے۔امید ہے کہ نئے سال میں بھارتی ٹیم پاکستان کے خلاف سیریز کھیلے گی۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ خواتین کرکٹ ٹیم کا گولڈمیڈل: 2014ء میں چین کے شہر گوانگزو میں ہونے والے ایشین گیمز میں کرکٹ کے مقابلوں میں پاکستان خواتین کرکٹ ٹیم نے بنگلہ دیش کو ہرا کر سونے کا تمغہ جیتا تھا۔بنگلہ دیش کی ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ بیس اوورز میں 92رنز بنائے۔ پاکستانی ٹیم نے مقررہ ہدف15.4اوورز میں حاصل کرلیاتھا۔ایشین گیمز میں پاکستان کا یہ پہلا گولڈ میڈ ل تھا۔ اس سے قبل پاکستانی کھلاڑی ووشو میں چاندی اور اسنوکر میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ کامن ویلتھ گیمز : پاکستان گولڈ میڈل سے محروم: 2014ء میںگلاسگو میں منعقدہ20ویں کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان 16سال بعد گولڈ میڈل سے محروم رہا اور 3 سلور اور ایک برانز میڈل ہی حاصل کر سکا۔ اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ہونے والے مقابلوں میں صرف ریسلنگ، جوڈو اور باکسنگ میں میڈلز نصیب ہوئے حالانکہ پاکستانی دستے نے 12 کھیلوں میں شرکت کی تھی، 1998 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایک بھی طلائی تمغہ حاصل نہ ہوا۔
سال 2014ء :بیتے لمحوں کی بیتی یادیں سال 2014ء :بیتے لمحوں کی بیتی یادیں Reviewed by Unknown on 06:05:00 Rating: 5

No comments